الیکشن 2013 میں اب تک کے نتائج سے جو حکومتوں کی شکل ابھری ہے وہ میرے نزدیک کافی خوش آئند ہے۔ PMLN کی مرکزی اور پنجاب میں صوبائی حکومت کی ضرورت اس لیے تھی کے ان تجربہ کار لوگوں کی قابلیت کو ایک دفعہ کھل کر عوام کے سامنے آنے کا موقعہ ملے گا اور مرکزی اور صوبائی دونوں حکومت کے ساتھ یہ حجت تمام ہوجائے گی۔ اگلے الیکشن اگر کارکردگی کی جگہ ترجیحات پر لڑے جائیں تو یہ ہم سب کے لیے بہتر ہوگا۔
اسی طرح خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کرنے سے پی ٹی آئی کو بہت فائدہ ہوگا۔ اس کا ایک رخ تو اپنی قابلیت، ترجیحات اور خلوص نیت کے اظہار کے لیے ممد ثابت ہوگا تاکہ عوام کا دل جیت کر اگلی دفعہ مرکزی حکومت بنانے کے لیے مینڈیٹ حاصل کیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف خیبر پختونخوا کی حکومت پی ٹی آئی کو اپنے انقلابی خیالات کے آزمانے کے لیے ایک عظیم موقعہ ثابت ہوگی۔ چونکہ صوبائی حکومت کچھ حد تک اپنے اختیارات میں محدود ہوتی ہے اس لیے انتخابات کے وقت کیے گئے وہ وعدے جن کو صرف مرحلہ وار ہی نافذ کیا جاسکتا ہے کو ٹالا جا سکتا ہے تاکہ ان کو ان کے صحیح وقت پر پورا کیا جا سکے۔
صوبائی حکومت کی زمہ داریاں اور پی ٹی آئی کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں کو جمع کریں تو لسٹ کچھ اس طرح کی بنتی ہے۔ 1 امن و امان 2 تعلیم 3 صحت 4 روزگار۔
1 امن و امان
یہ پاکستان کا اور خاص طور پر اس صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوجاتی ہے کہ امن و امان کے بغیر آپ باقی سارے مسائل میں سکت کے باوجود اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ پی ٹی آئی نے امن و امان سے متعلق لائحہ عمل پہلے ہی دیا ہوا ہے اور اب صرف اس پر عمل کروانے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا میں داخلی سلامتی افغانستان میں جاری جنگ سے ماورا ہوکر نہیں سوچی جاسکتی اور اسی طرح پاکستانی طالبان کا معاملہ مزاکرات سے حل کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔
نیٹو سپلائی مرکزی حکومت کے معاہدوں کے زیر اثر چلتی ہے اور اس پر کسی بھی طرح کا ایکشن مرکزی حکومت کے لیے ہی چھوڑ دینا چاہئے۔ اگر یہ سپلائی جاری رہتی ہے تو اس کی حفاظت کا بندوبست بھی کرنا ہوگا کیونکہ حکومت کی رٹ کو برقرار رکھنا امن و امان قائم رکھنے کی پہلی شرط ہے۔ یہ سپلائی امریکہ کے افغانستان سے باہر نکلنے کے لیے بھی ضروری ہے۔
خیبر پختونخوا میں ڈرون حملے خال خال ہی ہوئے ہیں لیکن امریکہ کو یہ باور کرانا کے اب خیبر پختونخوا کی سرزمین پر ڈرون یا بن لادن جیسا حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا بہت ہی ضروری ہے۔ قبائلی علاقوں میں آنے والے ڈرون کا معاملہ مرکزی حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے لیکن ساتھ میں ان پر بہت زیادہ پریشر بھی ڈالنا چاہئے۔ نواز شریف کی حکومت اس پریشر کو استعمال کر کے امریکہ سے ڈرون حملوں پر سخت موقف لے سکتی ہے جسکا فائدہ بہرحال پاکستان عوام کو ہی ہوگا۔ اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کے ڈرون کے انتظار اور پھر اپنا جواب دینے کی بجائے امریکہ سے پہلے ہی جواب طلبی کی کوشش کی جائے۔ امریکہ نے ایک پالیسی بیان جاری کیا ہے جس میں اس نے ڈرون کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ میرے خیال میں خیبر پختونخوا کے لیے اس پالیسی کو بدلوانے کی کوشش کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ اس لیے کے امریکن ایمبیسی کے بہت سے لوگ اپنے معاملات کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا آتے ہیں اگر صوبائی حکومت انکے داخلہ پر تب تک پابندی عائد کردے جب تک امریکہ اپنی تبدیل شدہ پالیسی کا اعلان نہیں کرتا تو اس معاملے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان فوج کے تعلقات امریکہ سے کیسے ہیں اس عمل سے اس کا بھی پتا چل جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ فوج اگر چاہے بھی تو اس کام میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔
شدت پسندوں سے مزاکرات کے لیے سب سے پہلے حکومت کو ان اصول کو شائع کرنا ہوگا جسکی بناء پر طالبان یا کسی بھی دوسرے شدت پسندوں سے مزاکرات کیے جاسکتے ہیں۔ ان اصول میں میرے خیال میں سب سے پہلے اس نکتہ کو رکھنا ہوگا کہ شدت پسندوں کو ہتھیار ڈالنا ہوگا اور کسی بھی طرح کے دھماکوں اور حملوں کو جاری رکھنا ان مزاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف تصور کیا جائے گا۔ یہ بات زہن میں رہے کے یہ حقیقت ہے کہ شدت پسند ہتھیار ڈالنے پر کبھی بھی تیار نہ ہونگے لیکن اس کے بغیر ان سے مزاکرات کرنا یا ان کو معاشرے کے مجموعی دھارے میں شامل کرنا بھی ممکن نا ہوگا اور اگر کیا بھی گیا تو تباہ کن نتائج لے کر آئے گا۔ میرے خیال میں مزاکرات کا رستہ صرف اتمام حجت کے لیے استعمال ہو اور جو لوگ اس رستے سے واپسی آنا چاہیں انہیں خوش آمدید کہا جائے۔
اس کے بعد چونکہ صوبائی حکومت امریکی جنگ سے باہر آنے کا اعلان کرچکی ہے تو دہشت گردوں سے کسی بھی قسم کی رو رعایت نا برتی جائے اور ساتھ ہی میں حکومتی عمال کی مناسب اور موثر حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔ حکومتی نقصان حکومت کی کارکردگی میں بڑی رکاوٹ بنتا ہے اس لیے اس کو کم سے کم کرنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
جاری ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں