پاکستان تحریک انصاف کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن بن کر پاکستانی سیاست کے افق پر سورج کی طرح نمودار ہو چکی ہے۔ پاکستان بھر میں تقریبا ہر حلقہ سے اس کے امیدوار اگر جیتے نہیں بھی تو دوسرے یا تیسرے نمبر پر براجمان ہیں۔ دو تہائی کا جو خواب الیکشن سے پہلے دیکھا گیا تھا وہ تو اگرچہ پورا نہیں ہوا لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کے راتوں رات ملنے والی کامیابی زیادہ تر دیرپا نہیں ہوتی۔ عمران خان تو اپنی 20 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد اگرچہ کامیابی کا مستحق تھا لیکن اس کی بنائی ہوئی جماعت اپنے موجودہ رنگ میں بمشکل دو سال کی عمر کو پہنچی ہے۔ ابھی اس جماعت کے کارکنوں کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ میرا آج تک جتنا بھی تحریک کے لوگو ں سے ملنے کا تجربہ ہے اس سے یہی اندازہ لگا سکا ہوں کے نظم و ضبط ابھی ان کارکنوں کے مزاج میں شامل ہی نہیں ہوا ہے۔ چاہے وہ طاہرالقادری کا موقع ہو یا الیکشن کے بعد دھاندلی پر احتجاج کا، تحریک انصاف کے کارکنوں کا اپنے لیڈروں پر دباوّ نہ صرف حیرت انگیز تھا بلکہ اب تو ایسا لگتا ھے کہ وہ اپنے دباوّ سے فیصلہ کروانے میں کامیاب بھی ہو جائیںگے۔
الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن یہ سب مان رہے ہیں کہ دھاندلی سے زیادہ سے زیادہ 20 سے 30 سیٹوں کا فرق پڑا ہے اور جس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف نے دھاندلی کے بغیر بھِ اپوزیشن میں ہی بیٹھنا تھا، بعض لوگوں کا یہ استدلال کہ تحریک انصاف کے ووٹر کی تعداد اکثریت میں تھی اور اسے دھاندلی سے ہروایا گیا اس لیے سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا کیونکہ تحریک انصاف کی تیاری جلسوں اور جلوسوں تک تو تھی لیکن پاکستانی الیکشن میں جو اصل کام ہوتا ہے وہ الیکشن والے دن الیکشن بھگتانا ہوتا ہے اور اس بات سے وہ سب لوگ اتفاق کریں گے جو تحریک انصاف کے اندر کی خبریں رکھتے ہیں کے تحریک انصاف الیکشن بھگتانے میں بری طرح ناکام رہی۔ اس میں خاص طور پر الیکشن کی شام کو ووٹ کی گنتی میں ناکامی خاص طور پر قابل زکر ہے جس کی وجہ سے مخالف جماعتوں کے امیدواران کو من مانی کرنے کا مقع مل گیا۔ اگر تحریک انصاف کی اس غفلت کو مخالفین نے استعمال کر کے اپنی جیت رقم کرلی تو اس بات پر پچھتانے اور شور مچانے کی بجائے اسے اپنی کوتاہی سمجھ کر اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور آگے کی تیاری کرنی چاہئے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کو ملک دشمن جماعت سمجھنا تحریک انصاف کو آگے بڑھنے نہیں دیگا۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کے ہماری ترجیحات ہماری سمجھ کے لحاظ سے ہمارے ملک کے بہتر مفاد میں ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کے دوسروں کی ترجیحات ضروری طور پر ملک کے لیے تباہ کن ہی ہوں۔ پی ایم ایل این کی تنگ نظر قیادت اس ملک کو تیزی سے تباہیوں کے سفر سے شاید نہیں نکال سکتی لیکن شریف برادران کا اچھا نظر آنے کا خبط انکو ذرداری کا مقام لینے نہیں دیگا۔ طاقتور میڈیا اور باشعور عوام انہیں کرپشن سے کافی حد تک باز رکھیں گے اور جہاں اتنی سہی ہیں یہ ملک تھوڑی بہت کرپشن سہہ ہی سکتا ہے۔
الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن یہ سب مان رہے ہیں کہ دھاندلی سے زیادہ سے زیادہ 20 سے 30 سیٹوں کا فرق پڑا ہے اور جس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف نے دھاندلی کے بغیر بھِ اپوزیشن میں ہی بیٹھنا تھا، بعض لوگوں کا یہ استدلال کہ تحریک انصاف کے ووٹر کی تعداد اکثریت میں تھی اور اسے دھاندلی سے ہروایا گیا اس لیے سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا کیونکہ تحریک انصاف کی تیاری جلسوں اور جلوسوں تک تو تھی لیکن پاکستانی الیکشن میں جو اصل کام ہوتا ہے وہ الیکشن والے دن الیکشن بھگتانا ہوتا ہے اور اس بات سے وہ سب لوگ اتفاق کریں گے جو تحریک انصاف کے اندر کی خبریں رکھتے ہیں کے تحریک انصاف الیکشن بھگتانے میں بری طرح ناکام رہی۔ اس میں خاص طور پر الیکشن کی شام کو ووٹ کی گنتی میں ناکامی خاص طور پر قابل زکر ہے جس کی وجہ سے مخالف جماعتوں کے امیدواران کو من مانی کرنے کا مقع مل گیا۔ اگر تحریک انصاف کی اس غفلت کو مخالفین نے استعمال کر کے اپنی جیت رقم کرلی تو اس بات پر پچھتانے اور شور مچانے کی بجائے اسے اپنی کوتاہی سمجھ کر اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور آگے کی تیاری کرنی چاہئے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کو ملک دشمن جماعت سمجھنا تحریک انصاف کو آگے بڑھنے نہیں دیگا۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کے ہماری ترجیحات ہماری سمجھ کے لحاظ سے ہمارے ملک کے بہتر مفاد میں ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کے دوسروں کی ترجیحات ضروری طور پر ملک کے لیے تباہ کن ہی ہوں۔ پی ایم ایل این کی تنگ نظر قیادت اس ملک کو تیزی سے تباہیوں کے سفر سے شاید نہیں نکال سکتی لیکن شریف برادران کا اچھا نظر آنے کا خبط انکو ذرداری کا مقام لینے نہیں دیگا۔ طاقتور میڈیا اور باشعور عوام انہیں کرپشن سے کافی حد تک باز رکھیں گے اور جہاں اتنی سہی ہیں یہ ملک تھوڑی بہت کرپشن سہہ ہی سکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں