1992 کے ورلڈکپ کے بعد سے اب تک کرکٹ اور کرکٹ ورلڈکپ میں کافی تبدیلیاںہو چکی ہیں لیکن اب تک دوبارہ اتنا متوازن ٹورنامنٹ کا انتظام نہیں کیا جا سکا ہے۔ شاید آسٹریلیا میںمنعقد ہونے والے کسی ورلڈکپ میں ہی ایسا ہو سکے۔
جب اس (2007 کا) ورلڈکپ کا آغاز ہو رہا تھا تو اس طرح لگ رہا تھا جیسے کے یہ کرکٹ دیکھنے والوں کی اس شکایت کو پورا کر دے گا کیونکہ نا صرف اس میں سیمی فائنل اور فائنل میں ناک آؤٹ سسٹم کی وجہ سے ڈو آر ڈائ کا مرحلہ ہے بلکے سپر ایٹ کی صورت میں اس میں راؤنڈ رابن کا موقعہ بھی موجود ہے چنانچہ ہر ٹیم کے پاس اپنی برتری منوانے کے ایک سے زیادہ مواقع مو جود ہیں ۔ اگرچہ بیسٹ آف تھری فائنل کا آیڈیا بھی ایک عرصہ سے گردش میں ہے لیکن کرکٹ میچز کی طوالت ورلڈکپ کو پہلے ہی بہت طویل کر دیتی ہے چنانچہ تین فائنلز کا آیڈیا کوئ بہت پسندیدہ تحریک نہیں بن سکا۔
کرکٹکو بائ چانس کہا جاتا ہے لہٰذا ناک آؤٹ سسٹم ورلڈکپ کے شایان شان کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایونٹ 4 سال بعد آتا ہے اور کسی کا ایک برا دن چار سال کی محنت پر پانی پھیر دے تو اس کو انصاف نہیں کہا جا سکتا۔
موجودہ ورلڈکپ میں پری سپر ایٹ مرحلہ میں ایک گروپ چار ٹیموں پر مشتمل ہے ۔ جس میں سے 2 ٹیمیں سپر ایٹ سیڈنگ میں سے ہیں ۔ اب جب ان دونوں کا میچ ہوتا ہے تو ایک نے ہارنا ہے اور یہاں پر ہارنے والی ٹیم کے لیے باقی دونوں میچز تقریبًا ناک آؤٹ بن جاتے ہیں ۔
انڈیا کی ٹیم بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد اب اس ہی مرحلہ میں ہے اور بنگلہ دیش اور برمودا کے میچ کا انتظار کر رہی ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کا میچ ایک ایسا ہی برا میچ تھا جس نے اس ورلڈکپ کی دلکشی کافی کم کر دی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر بنگلہ دیش سے دس مزید مقابلے کرالیں آپ انڈین ٹیم کے تو انڈیا آسانی سے نو میچ جیت لے گا ۔ لیکن ایک برا دن انڈیا کی چار سالہ محنت پر حاوی ہو چکا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تو اس سے بھی برا ہوا (جو کے اب انڈیا کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بنگلہ دیش برمودا کا میچ بارش کی نذر ہوتا نظر آرہا ہے) کیونکہ آئرلینڈ اور زمبابوے کا میچ پہلے ہی ڈرا ہو گیا تھا اور آئرلینڈ سے شکست نے پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔ ایک میچ کی وجہ سے دنیا کی نمبر 3 ٹیم کا ورلڈکپ سے باہر ہو جانا صرف پاکستان کرکٹ کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے بلکہ اس ورلڈکپ کا انعقاد کرنے والوں کے لیے بھی ایک معاشی دھچکا ہے۔
آئ سی سی کو اس چیز پر غوروخوض کرنا ہوگا اور مستقبل میں اس طرح کے انتظامات کرنے ہونگے کے کرکٹ ورلڈکپ ایک فضول مشق نا بن کر رہ جائے۔ چمپینز ٹرافی اور ورلڈکپ صرف دو ہی ٹورنامنٹ ہیں جو کے آئ سی سی انتظام کرتی ہے اور ان کا بھی اس طرح کا حال کرکٹکے لیے کچھ زیادہ مناسب نہیں ہوگا۔
جب اس (2007 کا) ورلڈکپ کا آغاز ہو رہا تھا تو اس طرح لگ رہا تھا جیسے کے یہ کرکٹ دیکھنے والوں کی اس شکایت کو پورا کر دے گا کیونکہ نا صرف اس میں سیمی فائنل اور فائنل میں ناک آؤٹ سسٹم کی وجہ سے ڈو آر ڈائ کا مرحلہ ہے بلکے سپر ایٹ کی صورت میں اس میں راؤنڈ رابن کا موقعہ بھی موجود ہے چنانچہ ہر ٹیم کے پاس اپنی برتری منوانے کے ایک سے زیادہ مواقع مو جود ہیں ۔ اگرچہ بیسٹ آف تھری فائنل کا آیڈیا بھی ایک عرصہ سے گردش میں ہے لیکن کرکٹ میچز کی طوالت ورلڈکپ کو پہلے ہی بہت طویل کر دیتی ہے چنانچہ تین فائنلز کا آیڈیا کوئ بہت پسندیدہ تحریک نہیں بن سکا۔
کرکٹکو بائ چانس کہا جاتا ہے لہٰذا ناک آؤٹ سسٹم ورلڈکپ کے شایان شان کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایونٹ 4 سال بعد آتا ہے اور کسی کا ایک برا دن چار سال کی محنت پر پانی پھیر دے تو اس کو انصاف نہیں کہا جا سکتا۔
موجودہ ورلڈکپ میں پری سپر ایٹ مرحلہ میں ایک گروپ چار ٹیموں پر مشتمل ہے ۔ جس میں سے 2 ٹیمیں سپر ایٹ سیڈنگ میں سے ہیں ۔ اب جب ان دونوں کا میچ ہوتا ہے تو ایک نے ہارنا ہے اور یہاں پر ہارنے والی ٹیم کے لیے باقی دونوں میچز تقریبًا ناک آؤٹ بن جاتے ہیں ۔
انڈیا کی ٹیم بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد اب اس ہی مرحلہ میں ہے اور بنگلہ دیش اور برمودا کے میچ کا انتظار کر رہی ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کا میچ ایک ایسا ہی برا میچ تھا جس نے اس ورلڈکپ کی دلکشی کافی کم کر دی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر بنگلہ دیش سے دس مزید مقابلے کرالیں آپ انڈین ٹیم کے تو انڈیا آسانی سے نو میچ جیت لے گا ۔ لیکن ایک برا دن انڈیا کی چار سالہ محنت پر حاوی ہو چکا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تو اس سے بھی برا ہوا (جو کے اب انڈیا کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بنگلہ دیش برمودا کا میچ بارش کی نذر ہوتا نظر آرہا ہے) کیونکہ آئرلینڈ اور زمبابوے کا میچ پہلے ہی ڈرا ہو گیا تھا اور آئرلینڈ سے شکست نے پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔ ایک میچ کی وجہ سے دنیا کی نمبر 3 ٹیم کا ورلڈکپ سے باہر ہو جانا صرف پاکستان کرکٹ کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے بلکہ اس ورلڈکپ کا انعقاد کرنے والوں کے لیے بھی ایک معاشی دھچکا ہے۔
آئ سی سی کو اس چیز پر غوروخوض کرنا ہوگا اور مستقبل میں اس طرح کے انتظامات کرنے ہونگے کے کرکٹ ورلڈکپ ایک فضول مشق نا بن کر رہ جائے۔ چمپینز ٹرافی اور ورلڈکپ صرف دو ہی ٹورنامنٹ ہیں جو کے آئ سی سی انتظام کرتی ہے اور ان کا بھی اس طرح کا حال کرکٹکے لیے کچھ زیادہ مناسب نہیں ہوگا۔
3 تبصرے:
yes, u r right. But this format seems to b the fairest. Another suggestion would be to have a double-league format in the group stages (each team playing other twice). but that would mean 24 more matches. This will b too much for the already two-month long tournament.
Or
Having a first round of minnows with only two qualifying for the final round. With ten teams and two groups, the top two will go to semi finals.
Or (Last but best)
Pakistan and India should be given a free entry to the second round.
Baqi jo marzi karein.
1. if you remove a few minnows and come to 12 teams worldcup then you can have double league also with exactly same number of matches.
2. this knock out situation arise only for the loosing team of the main two teams in current setup. if we make the biggest match in the pool irrelevant to the points table by awarding 2 points to both teams and count this match only for the super eight round then we can easily avoid situations like India or Pakistan faced. it would force the minnows to perform instead of using luck to reach in the big event.
That would be very bad for minnows
The best thing would be to have 12 teams in main world cup, with a Super-6 stage, semifinals and a final.
Top 8 teams in the rankings qualify directly. While the bottom 2 in one day rankings will play the four other asociates or 6 other associates in a Pre-tournament for two berths for the world cup.
Otherwise, sponsors will b annoyed
http://www.dawn.com/2007/03/30/spt13.htm
ایک تبصرہ شائع کریں