طالبان کی طرح کی تحریکیں جو کہ آج کل پاکستان میں کافی عام نظر آرہی ہیں یہ کب اور کیسے شروع ہوئیں ؟
میں اگر اس کی تاریخ ڈھونڈنے کی کوشش کروں تو ایسا لگتا ہے ابھی کچھ مہینے پہلے یہ سب کچھ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اور پھر اچانک یہ سب شروع ہوگیا۔ اگر ہم اس دوران ہونے والے اہم واقعات کا جائزہ لیں تو کچھ چیزیں سامنے نظر آتی ہیں۔
1 ۔ امریکی پارلیمنٹ اور حکومت کا پاکستانی حکومت کی سرزنش اور اسکی غیر مشروط حمایت سے ہاتھ کھینچنا
2۔ اس حقیقت کا عام فہم ہوجانا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے مسائل میں الجھی ہیں اور حکومت کے خلاف کوئ موثر طاقت بن سکنے کے قابل نہیں
3۔ الیکشن کا دن بدن قریب آنا
4۔ عدلیہ کا اپنی آزادی کے لیے جدوجہد
5۔ امریکہ کی افغانستان اور عراق میں متوقع شکست
ان سب باتوں کی موجودگی میں میرا خیال ہے کے مشرف حکومت اس طرح کی کسی سرگرمی کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ مدرسہ حفصہ والوں کو جتنی چھوٹ دی گئ تھی لائبریری کے مسلے پر بھی حالانکہ تقریبًا اسی وقت باجوڑ میں کافی سختی سے پیش آیا گیا تھا اس بات کا کافی قوی امکان ہے کے ابھی حکومت طالبانائزیشن کا مزید فروغ ابھی روا رکھے گی ۔ ٹانک کا واقعہ میرے خیال میں ابھی صرف ابتدا ہے اور اس طرح کے بہت سے اور واقعات کو جگہ دی جائے گی۔
اس کا ایک بالکل سیدھا سادا فائدہ تو یہ ہوگا کے امریکہ کے پاس سے کسی بھی اور آپشن کو ختم کردیا جائے گا اور وہ صرف اور صرف پرویز مشرف کی حمایت ہی کر سکے گا۔ لیکن یہ ایک بہت معصوم فائدہ ہے اصل فائدہ تو یہ لینا مقصود ہے کے اس سال کے آخر یا وسط میں جو غیر جمہوری طریقے استعمال کرنا موجودہ حکومت کی مجبوری بنتی جا رہی ہے اس معاملے میں مغرب کو خاموش کرانا ہے۔
یہ بات اب عیاں ہوتی جا رہی ہے کے کسی بھی شفاف انتخابات کی صورت میں ق لیگ کی جیت مشکل ترین ہے جبکہ بی بی نا صرف بہت بڑی ڈیل کے چکر میں ہے بلکہ خود پی پی کا جیتنا بھی کوئ بہت آسان باتوں میں نہیں ہے۔ نواز گروپ نے پنجاب میں ق لیگ کے لیے بہت بڑی مشکلات کھڑی کرنی ہیں جبکہ سرحد اور بلوچستان میں ایم ایم اے پھر دوبارہ ایک اچھی پوزیشن حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ جنوبی پنجاب آرام سے پیپلز پارٹی اور نواز گروپ ‘ ایم ایم اے اتحاد کو مل سکتا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کو ایم کیو ایم کے پاس ہی رہنا ہے ابھی کچھ وقت تک لیکن ایم کیو ایم کے لیے ابھی حکومت سے باہر رہنا مشکل ہے اس لیے جسکی حکومت ہوگی ایم کیو ایم اس کی اتحادی ہوگی۔ عمران خان نے بھی شہری علاقوں میں کچھ اثر ڈالنا ہے جو کہ یقینًا حکومت کے خلاف ہی ہوگا۔
جبکہ ماضی کی طرح غیر شفاف انتخابات کروانا بھی اب آسان کام نہیں ہے کیونکہ میڈیا ایسی تمام چیزوں کو بڑی آسانی سے عریاں کرسکتا ہے۔
تو اب مشرف حکومت کے پاس کیا حل رہ جاتا ہے ۔ میرے خیال میں صرف یہ کے یاتو ایمرجنسی لگا کر ملک پر فوج کا مکمل قبضہ کر لیا جائے یا کم از کم انتخابات کو ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا جائے جس کے لیے طالبانائزیشن کا عمل راہ ہموار کر رہا ہے ۔ ابھی حکومت کے لیے انتخابات کو ملتوی کرنا ہی سب سے محفوظ عمل ہے کیونکہ فوج کے آنے کی صورت میں اس کے جانے کا رستہ بنانا آسان نہ ہوگا ۔ جوکہ مستقل صورت میں مغرب کے لیے یقینًا ناقابل قبول ہوگا۔
میں اگر اس کی تاریخ ڈھونڈنے کی کوشش کروں تو ایسا لگتا ہے ابھی کچھ مہینے پہلے یہ سب کچھ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اور پھر اچانک یہ سب شروع ہوگیا۔ اگر ہم اس دوران ہونے والے اہم واقعات کا جائزہ لیں تو کچھ چیزیں سامنے نظر آتی ہیں۔
1 ۔ امریکی پارلیمنٹ اور حکومت کا پاکستانی حکومت کی سرزنش اور اسکی غیر مشروط حمایت سے ہاتھ کھینچنا
2۔ اس حقیقت کا عام فہم ہوجانا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے مسائل میں الجھی ہیں اور حکومت کے خلاف کوئ موثر طاقت بن سکنے کے قابل نہیں
3۔ الیکشن کا دن بدن قریب آنا
4۔ عدلیہ کا اپنی آزادی کے لیے جدوجہد
5۔ امریکہ کی افغانستان اور عراق میں متوقع شکست
ان سب باتوں کی موجودگی میں میرا خیال ہے کے مشرف حکومت اس طرح کی کسی سرگرمی کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ مدرسہ حفصہ والوں کو جتنی چھوٹ دی گئ تھی لائبریری کے مسلے پر بھی حالانکہ تقریبًا اسی وقت باجوڑ میں کافی سختی سے پیش آیا گیا تھا اس بات کا کافی قوی امکان ہے کے ابھی حکومت طالبانائزیشن کا مزید فروغ ابھی روا رکھے گی ۔ ٹانک کا واقعہ میرے خیال میں ابھی صرف ابتدا ہے اور اس طرح کے بہت سے اور واقعات کو جگہ دی جائے گی۔
اس کا ایک بالکل سیدھا سادا فائدہ تو یہ ہوگا کے امریکہ کے پاس سے کسی بھی اور آپشن کو ختم کردیا جائے گا اور وہ صرف اور صرف پرویز مشرف کی حمایت ہی کر سکے گا۔ لیکن یہ ایک بہت معصوم فائدہ ہے اصل فائدہ تو یہ لینا مقصود ہے کے اس سال کے آخر یا وسط میں جو غیر جمہوری طریقے استعمال کرنا موجودہ حکومت کی مجبوری بنتی جا رہی ہے اس معاملے میں مغرب کو خاموش کرانا ہے۔
یہ بات اب عیاں ہوتی جا رہی ہے کے کسی بھی شفاف انتخابات کی صورت میں ق لیگ کی جیت مشکل ترین ہے جبکہ بی بی نا صرف بہت بڑی ڈیل کے چکر میں ہے بلکہ خود پی پی کا جیتنا بھی کوئ بہت آسان باتوں میں نہیں ہے۔ نواز گروپ نے پنجاب میں ق لیگ کے لیے بہت بڑی مشکلات کھڑی کرنی ہیں جبکہ سرحد اور بلوچستان میں ایم ایم اے پھر دوبارہ ایک اچھی پوزیشن حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ جنوبی پنجاب آرام سے پیپلز پارٹی اور نواز گروپ ‘ ایم ایم اے اتحاد کو مل سکتا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کو ایم کیو ایم کے پاس ہی رہنا ہے ابھی کچھ وقت تک لیکن ایم کیو ایم کے لیے ابھی حکومت سے باہر رہنا مشکل ہے اس لیے جسکی حکومت ہوگی ایم کیو ایم اس کی اتحادی ہوگی۔ عمران خان نے بھی شہری علاقوں میں کچھ اثر ڈالنا ہے جو کہ یقینًا حکومت کے خلاف ہی ہوگا۔
جبکہ ماضی کی طرح غیر شفاف انتخابات کروانا بھی اب آسان کام نہیں ہے کیونکہ میڈیا ایسی تمام چیزوں کو بڑی آسانی سے عریاں کرسکتا ہے۔
تو اب مشرف حکومت کے پاس کیا حل رہ جاتا ہے ۔ میرے خیال میں صرف یہ کے یاتو ایمرجنسی لگا کر ملک پر فوج کا مکمل قبضہ کر لیا جائے یا کم از کم انتخابات کو ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا جائے جس کے لیے طالبانائزیشن کا عمل راہ ہموار کر رہا ہے ۔ ابھی حکومت کے لیے انتخابات کو ملتوی کرنا ہی سب سے محفوظ عمل ہے کیونکہ فوج کے آنے کی صورت میں اس کے جانے کا رستہ بنانا آسان نہ ہوگا ۔ جوکہ مستقل صورت میں مغرب کے لیے یقینًا ناقابل قبول ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں