اتوار, جنوری 09, 2011

پہلوان

ایک دفعہ کا زکر ہے ایک گاءوں میں کہیں سے ایک پہلوان آکر آباد ہوگیا۔ یہ پہلوان مزاج کے لحاظ سے کافی ٹھنڈے دل کا اور غریبوں اور کمزوروں کے کام آنے والا تھا۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں گاءوں کے لوگوں میں اسکی کافی عزت اور احترام پیدا ہوگیا۔ اب جب بھی کسی کمزور کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی یا کسی دو فریقوں میں جھگڑے کا سماں بندھتا تو یا تو فریقین خود یا کوئی دوسرا اس مسئلہ کو پہلوان کے پاس لے آتا۔ پہلوان باہمی مشورے سے انکے درمیان فیصلہ کروادیاتا اور چونکہ گاءوں میں کوئی پہلوان کی ٹکر کا نہیں تھا اس لیے فیصلے کی تعمیل میں بھی زیادہ مشکل درپیش نا ہوتی۔

گاءوں میں امن اور بھائی چارہ کا دور دورہ تھا۔ 

لیکن یہ امن اور سکون پچھلے مکھیا اور مولوی کو زیادہ پسند نا تھا۔ پہلوان کے آنے سے پہلے لوگ اپنے مسائل لے کر مکھیا کے پاس آیا کرتے تھے اور مکھیا اپنے فیصلوں کے باعث  کافی اثرورسوخ کا حامل سمجھا جاتا تھا لیکن پہلوان نے اسکی دکان بڑھا دی تھی جسکا اسکو کافی رنج تھا۔ اسی طرح مولوی بھی اب صرف بچے کو اذان سنانے یا کسی کی جنازے پڑھانے تک ہی کارآمد رہ گیا تھا کیونکہ پہلوان کا اکھاڑہ آباد ہونے کے بعد لوگ اب زیادہ ادھر ہی بیٹھک لگاتے تھے اور مختلف مسائل کا حل بھی وہیں دھونڈا کرتے تھے۔ مولوی کو اپنی مفت کی چوہدراہٹ چھن جانے کا دکھ کھائے جاتا تھا۔

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے یہ دونوں اکثر دماغ لڑایا کرتے تھے پر کچھ سمجھ نا آتا تھا ۔ ایک دن مولوی کو ایک ترکیب سوجھی اور اس نے مکھیا کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ۔ یہ دونوں اسکے بعد پہلوان کے پاس گئے اور اس کا حال چال پوچھنے لگے۔

کچھ دیر کی گفتگو کے بعد مولوی نے پہلوان کو کہا کہ اتنی طاقت اور گاءوں والوں کے اتنے کام آنے کا کیا فائدہ جب کچھ لوگ پہلوان کی عزت ہی نہیں کرتے۔ پہلوان نے حیران ہوکر ان سے انکا مطلب پوچھا تو مکھیا کہنے لگا۔ دیکھو لوگ تمہاری تو عزت کرتے تمہارے ڈر کی وجہ سے پر تمہارے خاندان کی عزت نہیں کرتے۔ میں نے کئی لوگوں کو بہت سی غلط باتیں کرتے سنا ہے۔ میرا تو بڑا دل دکھتا پر جب تمہیں نہیں پرواہ تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پہلوان غصے میں آگیا اور کہنے لگا کس میں ہمت میں کہ ایسی بات کرے۔ میں اسکی ٹانگیں توڑ دونگا۔ اس پر مولوی کہنے لگا کہ وہ تمہارے سامنے مانیں گے تو تمہیں پتا چلے گا کے انہوں نے کیسی غلیظ بات کی ہے۔ اب پہلوان بھی سوچ میں پڑ گیا پر اسے کچھ سمجھ ناآیا۔ چنانچہ اس نے مولوی کو کہا کے پھر وہ ہی اسکا حل بتائے۔ مولوی نے جب حل بتایا تو پہلوان کو بہت پسند آیا۔

پہلوان نے گاءوں میں اعلان کروا دیا کے جو بھی اسکے خاندان کے متعلق بری بات کرے گا وہ اس کو سزا دے گا اور جو اسکے سامنے کسی کی اس حرکت کی گواہی دے گا اس کو انعام ملے گا۔ گاءوں والے اس اعلان پر حیران ہوئے پر ہر کسی نے سوچا کہ ایسا کوئی کرتا نہیں چنانچہ کوئی مسئلہ بھی نہیں ہونا چاہئیے۔ 

اب مولوی اور مکھیا اپنے ترکیب کے دوسرے حصے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے ایک نیا کام شروع کیا۔ وہ جب دیکھتے کے کوئی جھگڑا ہوا ہے یا ان کو کسی رنجش کی خبر ملتی وہ چپکے سے اس فریق کو ملتے جو زیادتی کا مرتکب ہو اور اسکو پہلوان سے بچنے کی ترکیب بتاتے۔ یہ ترکیب بہت ہی سادہ ہوتی کہ بس پہلوان کے پاس جا کر گواہی دے دہ کے فلاں شخص تمہارے خاندان کے متعلق نازیبا باتیں کررہا تھا۔ اور نتیجتاً پہلوان کو اس شخص کے خلاف ایکشن لینا پڑتا۔ جہاں کہیں بھی پہلوان کسی سوچ میں پڑتا دکھائی دیتا تو مولوی اور مکھیا شور مچادیتے کہ پہلوان کو اپنے خاندان کی ناموس کا احساس نہیں ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد ہی پہلوان اس گاءوں سے چلا گیا۔ کہاں گیا اس کا صحیح اندازا تو نہیں پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ واپس وہیں چلاگیا جہاں سے آیا تھا۔

3 تبصرے:

گمنام کہا...

It’s really a nice and helpful piece of information. I’m glad that you shared this helpful info with us. Please keep us informed like this. Thanks for sharing.

Adsense in urdu کہا...

oh so sad, i thinh molvie is a bad man and Pehlwan is a mantal.

Asim Jofa کہا...

I just want to say your article is wonderful the clarity in your post is just nice and i can assume you are an expert on this subject thanks.