اے پی ڈی ایم کا حالیہ اجلاس ختم ہو چکا ہے اور اس میں شامل تمام پارٹیوں نے انفرادی طور پر بایٗکاٹ کر نے نا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ موجود صورتحال کو دیکھتے ہوٗے یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے علاوہ شاید تمام جماعتیں الیکشن میں حصہ لیں گی۔
اب جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو مل کر کوٗی ایسی تحریک چلانا ہو گی جو کے انتخابات کے انعقاد کو مشکل ہی نہیں ناممکن بنادے۔ پرامن رہتے ہوٗے ایسا کرنا اگرچہ مشکل تو ضرور ہے پر ناممکن نہیں۔ اسلام آباد، لاہور، ملتان، پشاور، فیصل آباد اور کوٗیٹہ میں مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا جس میں طلباء، وکلاء اور جماعت کے سیاسی کارکن اچھی طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ عمران خان کو اب خود چھوٹے شہروں کا چکر لگانا ہوگا تاکہ عام لوگوں اور طلباء کا اس بڑے مقصد کے لیے تیار کیا جا سکے۔ جماعت کو اب اپنے ساکھ بچانے کے لیے اپنی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ 5 سال تک انکے کارکن خالی ہاتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ وکلاء اگرچہ پہلے ہی اس جدوجید میں سب سے آگے پر ابھی انکی منزل نہیں آٗی ہے چنانچہ اس جوش و جذبہ کو قاٗم رکھنا ہوگا۔
اگر یہ سب کرنے میں تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور وکلاء تحریک ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کا بہانا ڈھونڈ چکی ہیں وہ کبھی پیچھے مڑ کے عدلیہ کو نہیں دیکھیں گی۔ خاص طور پر اس صورت میں کے ایک آزاد عدلیہ ہماری سیاسس جماعتوں کے لیے ویسے ہی موت ہے۔
یہ نا ہو پھر پان کی دکانوں پر کشمیر کی جگہ یہ لکھا ہو "عدلیہ کی آزادی تک ادھار بند ہے"
1 تبصرہ:
بلکل صحیح پہچانا آپ نے۔
سیاسی پارٹیاں بلکل سلفش ہیں اور اقتدار کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں۔
ذرا اس بلاگ پر نظر دوڑائیے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/12/071206_ten_questions.shtml
ایک تبصرہ شائع کریں