بدھ, جنوری 18, 2006

تم ایسی نہیں تھیں

کوئ اس سے پوچھے
کہ کیوں ہم کو چھوڑا
کیا کم تھی محبت
یا دل ھم نے توڑا

جو دل ھم نے توڑا
تو دے لو سزا نا
یہ کیسی ہے نفرت
کہ جائے اب جیا نا

یہ مانا کہ ہم سے
ہوئ ہے یہ غلطی
جو دیکھا تمھیں تو
نا کی ھم نے جلدی

جو سمجھا تمھیں تو
تو چاہا ہے پانا
کہ پاکر تمھیں ہی
بنے آشیانا

اگر چھوڑ دو ضد
تو کر لوں یہ وعدہ
نہر بھی جو کھودوں
تو 'فر' سے زیادہ

کیا کنگن کیا چھلے
کیا چاندی کیا سونا
نچھاور تمھیں پر
مرا ہونا نا ہونا

جو اب بھی ہے میرا
وہ تمرا نہیں کیا
اب ایسا کیا لڑنا
کہ من نا نہیں کیا

کھڑا ہوں میں دیکھو
بچھی ہیں نگاہیں
بڑھا لو قدم تم
نا سونی ہوں راہیں

جو رہتی ہو غافل
تڑپتا ہوں ہر پل
اگر نا تم پلٹیں
تو جینا ہے مشکل

کہ جب بھی تم آؤ
اگر مسکراؤ
کہو آگے بڑھ کے
میں ایسی نہیں ہوں

تو میں جی اٹھونگا
ہاں میں جی اٹھونگا
بس یہی سوچتا ہوں
میں یہی سوچتا ہوں

کوئی تبصرے نہیں: