اندھیروں کا تسلسل مختصر ہونے نہیں دیتا
سحر کا نام لیتا ہے، سحر ہونے نہیں دیتا
وہ شب فطرت ہے اس کو روشنی اچھی نہیں لگتی
کسی گھر میں اجالوں کا گزر ہونے نہیں دیتا
وہ دہشت بانٹتا ہے خوف کے منظر بناتا ہے
کوئی شاخِ تمنا بارور ہونے نہیں دیتا
وہ سارے فیصلے حسبِ ضرورت آپ کرتا ہے
کسی کا حرف، حرفِ معتبر ہونے نہیں دیتا
ہمیشہ دوسروں میں فاصلے تقسیم کرتا ہے
وہ لوگوں کو بہم شیروشکر ہونے نہیں دیتا
امیرِ کارواں رہنے کا اتنا شوق ہے اس کو
کہ دانستہ بھی تکمیلِ سفر ہونے نہیں دیتا
(سید عارف)
سحر کا نام لیتا ہے، سحر ہونے نہیں دیتا
وہ شب فطرت ہے اس کو روشنی اچھی نہیں لگتی
کسی گھر میں اجالوں کا گزر ہونے نہیں دیتا
وہ دہشت بانٹتا ہے خوف کے منظر بناتا ہے
کوئی شاخِ تمنا بارور ہونے نہیں دیتا
وہ سارے فیصلے حسبِ ضرورت آپ کرتا ہے
کسی کا حرف، حرفِ معتبر ہونے نہیں دیتا
ہمیشہ دوسروں میں فاصلے تقسیم کرتا ہے
وہ لوگوں کو بہم شیروشکر ہونے نہیں دیتا
امیرِ کارواں رہنے کا اتنا شوق ہے اس کو
کہ دانستہ بھی تکمیلِ سفر ہونے نہیں دیتا
(سید عارف)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں