جمعہ, اگست 04, 2006

اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ

اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ

تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہلِ نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن، یا بندہ زمانہ

غافل نہ ہو، خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاھرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ

رازِ حرم سے شاید اقبال باخبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے اندازِ محرمانہ

کوئی تبصرے نہیں: