جمعرات, مارچ 23, 2006

غزل

اعجاز عبید

وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں
جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں
اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں
دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں
عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ
میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں
شاید اس بار اس سے ملاقات ہو
بارے اب سچےّ دل سے دعا مانگ لوں
یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں
اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں
اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں
اپنے رب سے صداۓ رسا مانگ لوں
جمع کرتا ہوں میں ظلم کی آیتیں
کس کے سر سے گری ہے ردا، مانگ لوں

کوئی تبصرے نہیں: