منگل, مارچ 20, 2007

جیو پھر ٹریک پر

جنگ گروپ ہمیشہ سے پرو گورنمنٹ رہا ہے اور تبھی ہر زمانے میں‌اسکے کاروبار پر آنچ نا آسکی۔ پچھلے کچھ دنوں‌سے اس طرح‌لگ رہا تھا کے آخر کار اس کو بھی پر لگ گئے ہیں اور حالیہ دنوں‌میں‌تو جیو دیکھ کر لگتا تھا کہ انہوں نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا تو شاید سیکھ ہی لیا ہے ‌۔ جیو کے پروگرام خاصے تخلیقی ہوتے ہیں‌ اور کافی پروفیشنل انداز میں‌ پیش کیے جاتے ہیں‌لہٰذا یہ ایک اچھی بات تھی شاید پورے پاکستان کے لیے۔
لیکن یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نا رہ سکی اور جیو واپس ٹریک پر آگیا ہے (یا لا یا گیا ہے) ۔ آج کل پھر اس کے پروگرام دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ پہلی دفعہ مجھے اس وقت احساس ہوا جب میں‌نے پروگرام “آج کامران خان کے ساتھ“ میں‌مشرف کو دیکھا۔ اس پروگرام میں کامران خان نے واضح طور پر مشرف کو ہوم گراؤنڈ کا احساس دلایا حالانکہ ایک اوسط درجے کا صحافی بھی مشرف کو مشکل میں‌ڈال سکتا تھا۔ جب بی بی سی کی نامہ نگار لیز کو پرویز مشرف نے کہا تھا کے پاکستان میں‌مجاہدین کی امداد روک دی گئی ہے تو اس نے فوراً کہا تھا کہ آئیے چلیں‌اور یہاں‌سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر میں‌آپ کو آپ کو لشکر طیبہ کا دفتر کام کرتا ہوا دیکھاؤنگی جس پر پرویز مشرف نے آئیں بائیں‌شائیں‌شروع کر دی تھی۔ جبکے کامران خان کے سامنے صدر بڑے آرام سے جھوٹ‌ پر جھوٹ بولتے رہے پر ان کی ہمت نا ہو سکی کے کسی ایک بات پر ہی ٹوک سکتے۔
صدر نے بڑے آرام سے کامران خان کو بتایا کے وکلاء کے جلوس میں‌صرف ڈیڑھ دو سو لوگ شریک تھے جبکے اتنے لوگ تو کسی بھی ایک فوٹیج میں‌دیکھے جا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ وہ وکلاء تھے جو کسی نا کسی طرح‌پولیس کی ناکہ بندیاں توڑ کر اور بچتے بچاتے سپریم کورٹ تک پہنچے تھے اور آخری بات جب پولیس سے اور قانون کے محافظوں‌سے سر پھٹنے کا ڈر یا جان جانے کا ڈر ہوگا تو ڈیڑھ دو سو افراد کا جمع ہونا بھی بڑی بات ہے۔
صدر صاحب کا کہنا تھا کہ “میں‌ لاء آف دی لینڈ کا احترام کرتا ہوں“ ۔ میرا خیال ہے اس پر کامران خان کو کم از کم چہرے کے تاثر کو ہی بدل لینا چاہئے تھا ۔ ایک مسکراتا چہرہ یہ فرض‌کروا سکتا تھا کے وہ صدر کی بات کو اگنور کر رہے ہیں ۔
جیو کا حقوق نسواں کیس میں کردار بھی خاصا قابل اعتراض تھا۔ پہلے کسی خاص اشارے پر ایک تحریک شروع کی گئ اور رائے عامہ کو اس کے حق میں‌ہموار کیا گیا اور پھر جب ترمیم کے لیے ایک بہتر ماحول میسر آگیا تو جیو کے پروگرامز میں‌مدعو سارے علماء کامنظور کردہ ترامیم کو ردی کی ٹوکری میں‌ڈال دیاگیا۔ مسٹر جوابدہ کا تو مجھے نہیں‌پتا پر حامد میر نے ایک کالم لکھ کے اس ترمیم سے اپنی جان بچانی کی کوشش کی تھی جب کے اسی اخبار میں‌ان دنوں‌“سوچنے کا شکریہ“ نامی اشتہار چلا کر مالکان کریڈٹ‌ لے رہے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ بہت جلد وہ دن آنے والا ہے جب میڈیا حقیق معنوں‌میں‌آزاد ہوگا اور ہمارے اچھے صحافیوں کو اپنی روزی کی فکر اتنی نا ہوگی ۔ انشاء اللہ